ماضی اور مستقبل
2008 میں، مالی بحران نے عالمی معیشت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اب دس سال بعد، افراد اصولوں میں تبدیلیاں آنے پر محو حیرت ہیں، اور اس سے بھی اہم بات یہ کہ مستقبل میں اس قسم کے معاشی بحران سے کس طرح اجتناب کیا جا سکتا ہے۔
قرضہ جاتی مورگیج مارکیٹ کے تناظر میں بحران کے طور پر شروع ہونے والا عمل، بعد میں بڑے پیمانے کے عالمی مالیاتی بحران اور اقتصادی بحران کی صورت اختیار کر گیا۔ متعدد افراد بڑے پیمانے پر دی جانے والی مالی امداد سے لے کر اقتصادی تباہی تک عالمی بینکنگ سسٹمز کے استحکام اور شفافیت پر سوالات کر رہے ہیں، جس پر انہیں پہلے اعتبار تھا۔
مالی بحران کے دوران کیا ہوا تھا؟
اقتصادی بحران کے بعد سے بد ترین معاشی تباہی کے طور پر بیان کیے جانے والے، 2008 کے مالی بحران نے عالمی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا۔ اس کے نتیجے میں اقتصادی بحران رونما ہوا، جس کے باعث گھروں کی قیمتوں میں کمی اور بے روزگاری میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس معاملے سے منسلک عوامل متعدد تھے، اور یہ آج بھی مالیاتی سسٹم پر اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
امریکہ میں آٹھ ملین سے زائد شہری اپنی ملازمتوں سے فارغ ہو گئے، تقریباً 2.5 ملین کاروبار تباہ برباد ہوئے، اور دو سال سے کم عرصے میں تقریباً چار ملین تک گھر ضبط کر لیے گئے۔ قحط سالی سے لےکر آمدن کی غیر منصفانہ تقسیم تک، متعدد افراد کا سسٹم سے اعتبار اٹھ گیا۔
2009 میں باضابطہ طور پر بحران کا اختتام ہوا، لیکن بالخصوص امریکہ میں اس کے اثرات متعدد افراد پر بدستور مرتب ہوتے رہے۔ 2009 میں بے روزگاری کی شرح %10 تک پہنچ گئی تھی اور پھر کہیں 2016 میں جا کر بحران سے پہلے کی سطح پر بحال ہوئی۔
اقتصادی بحران کے اسباب کیا تھے؟
اگر سبب کی بات کی جائے، تو متعدد عوامل کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا تھا۔ "سنگین صورتحال" زیر عمل تھی اور جب یہ اپنی انتہائی حد پر پہنچی، تو مالی بحران نے جنم لیا۔ مالیاتی ادارے زائد خطرے کے حامل قرضہ جات (مرکزی طور پر مورگیجز) دے رہے تھے، جس نے بالآخر بڑے پیمانے پر ٹیکس دہندگان کی مالی معاونت یافتہ امداد فراہم کی۔
2008 کے مالی بحران کی اصل وجہ انتہائی پیچیدہ ہے، لیکن دراصل یہ امریکی ہاؤسنگ مارکیٹ تھی جہاں سے ردِعمل کا ایک سلسلہ شروع ہوا - جس کی وجہ سے مالیاتی سسٹم میں موجود نقائص کھل کر سامنے آئے۔ اس کے بعد Lehman Brothers کی فرم دیوالیہ کا شکار ہوئی، جس کا امریکی اور یورپی معیشت پر گہرا اثر ہوا۔ اس واقعے کے نتیجے میں، بینکس کے ممکنہ کمزور پہلو عوام پر واضح ہوئے۔ چونکہ عالمی معیشت باہم مربوط ہے، اس لیے اس واقعے کی وجہ سے دنیا بھر میں سنگین رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ آج اہم کیوں ہے؟
اگرچہ مالی بحران گزرے ایک دہائی ہو چکی ہے، خدشات اب تک موجود ہیں۔ اس بحران کے اثرات اب تک موجود ہیں، اور تاریخی معیارات کے لحاظ سے عالمی معاشی بحالی کافی حد تک کمزور ہے۔ ایک بار پھر زائد خطرے کے حامل قرضہ جات کی پیشکش کی جا رہی ہے، اور اگرچہ آج ڈیفالٹ ریٹس کم ہیں، لیکن یہ فوری طور پر تبدیل ہو سکتے ہیں۔
ضابطہ کاران اس امر پر زور دیتے ہیں کہ 2008 سے عالمی مالیاتی سسٹم تبدیل ہو چکے ہیں اور حفاظتی اقدامات خاطر خواہ حد تک موثر ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد افراد یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک دہائی قبل کی نسبت آج عالمی مالیاتی سسٹم زیادہ مضبوط ہے۔
اس کے برعکس، چند افراد اب تک یہ سوچ رہے ہیں: کیا ایسے معاشی بحران دوبارہ رونما ہو سکتے ہیں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ، جی ہاں سب کچھ ممکن ہے۔ ہونے والی متعدد تبدیلیوں اور نافذ ہونے والے نئے اصولوں کے باوجود بھی، کچھ بنیادی مسائل موجود رہتے ہیں۔
یاد رکھیں، 2008 کا مالی بحران ہمیں اس امر کی یاددہانی کرواتا ہے کہ پالیسی معنی رکھتی ہے۔ 2008 میں ہونے والے ایونٹس بالخصوص ان فیصلوں کے باعث ہوئے، جو ضابطہ کاران، سیاست دانوں، اور پالیسی بنانے والوں نے کافی سال قبل بنائے تھے۔ غلط طور پر کنٹرول کردہ انضباطی ادارہ جات سے لے کر کارپوریٹ کلچر تک، اقتصادی بحران "ماضی" کی بات تھی۔
Bitcoin اور دیگر کرپٹو کرنسیز کی ترقی
جیسا کہ 2008 کے مالی بحران نے بینکنگ کے روایتی سسٹم کے ساتھ منسلک چند خطرات واضح کیے، 2008 میں Bitcoin کا قیام ہوا - جو تخلیق کردہ سب سے پہلی کرپٹو کرنسی ہے۔
امریکی ڈالر یا برطانوی پاؤنڈز کے جیسی فیاٹ کرنسیز کے برعکس، Bitcoin اور دیگر کرپٹو کرنسیز غیر مرکزی ہوتی ہیں، یعنی انہیں قومی حکومت یا مرکزی بینک کے ذریعے کنٹرول نہیں کیا جاتا۔ اس کے بجائے، نئے کوائنز کی تخلیق کا تعین پہلے سے سیٹ کردہ اصولوں (پروٹوکول) کے ذریعے کیا جاتا ہے۔
Bitcoin پروٹوکول اور اس کا پروف آف ورک کا بنیادی مفاہمتی الگورتھم اس امر کو یقینی بناتا ہے کہ نئی کرپٹو کرنسی یونٹس کا اجراء باقاعدہ معمول کے مطابق ہوتا ہے۔ مزید مفصل انداز میں، نئے کوائنز کی تشکیل کا عمل مائننگ پر منحصر ہے۔ مائنرز سسٹم میں نہ صرف نئے کوائنز متعارف کروانے، بلکہ ٹرانزیکشنز کی توثیق اور تصدیق کرتے ہوئے نیٹ ورک کو محفوظ بنانے کے ذمہ دار بھی ہوتے ہیں۔
اضافی طور پر، پروٹوکول میپ کی مقرر کردہ سپلائی تشکیل کرتا ہے، جو اس امر کی ضمانت دیتی ہے کہ دنیا میں صرف کُل 21 ملین Bitcoins ہوں گے۔ یعنی، Bitcoin کی موجودہ اور مستقبل سپلائی کی بات آنے پر کوئی سرپرائزز نہیں ہیں۔ علاوہ ازیں، Bitcoin کا سورس کوڈ اوپن سورس ہے، اس لیے ہر فرد نہ صرف اسے چیک کرنے بلکہ اس کی ترقی میں شامل ہونے اور کردار ادا کرنے کے قابل بھی ہے۔
اختتامی خیالات
اگرچہ 2008 کے مالی بحران کے بعد ایک دہائی گزر چکی ہے، لیکن لوگ ابھی تک یہ نہیں بھولے کہ بینکنگ کا بین الاقوامی سسٹم حقیقی معنوں میں کتنا نازک ہے۔ ہم اس امر کی مکمل یقین دہانی نہیں کروا سکتے، لیکن یہ ممکنہ طور پر اُن وجوہات میں سے ایک ہے، جن کے باعث Bitcoin جیسی غیر مرکزی ڈیجیٹل کرنسی کی تخلیق ہوئی۔
کرپٹو کرنسیز کے ابھی بہت طویل سفر کا طے ہونا باقی ہے، لیکن یہ بلا شبہ فیاٹ کے روایتی سسٹم کے لیے ایک موثر متبادل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس طرح کا معاشی متبادل نیٹ ورک مالیاتی خود مختاری لا سکتا ہے، جس میں ممکنہ طور پر بہترین معاشرے کی تخلیق کرنے کی صلاحیت کے علاوہ کچھ اور موجود نہیں ہیں۔